صرف پانچ منٹ

خفیہ ایجنسی والوں نے کہا، صرف پانچ منٹ کے لیے ہمارے ساتھ چلیے۔ اور پھر وہ پانچ منٹ پورے نو سال میں کیسے بدلے، ان نو سال میں کیسا کیسا ظلم ڈھایا گیا، کیسا کیسا قہر توڑا گیا، قیدی کو کیسی کیسی اذیت سے گزارا گیا؟ اور قیدی کا قصور صرف یہ تھا کہ اس کا بھائی ایک جماعت سے وابستہ تھا۔ ایسی جماعت، جو حکومت سے برسر پیکار تھی، حالت جنگ میں تھی۔
یہ ایک شامی خاتون پر بیتے واقعات ہیں جنہیں انہوں نے کتابی شکل دی، میمونہ حمزہ نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے، عنوان ہے “صرف پانچ منٹ!”
اس کتاب کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ جب ریاست جبر پر اتر آتی ہے تو لاقانونیت کی کیسی کیسی داستانیں جنم لیتی ہیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

لکھنا ایک ڈرامے کا

یادوں کی پوٹلی سے، قسط 2

انفارمیشن ٹیکنالوجی پر پروگرام کے چند حصوں کا اسکرپٹ لکھتے لکھتے، میں نے شوق ہی شوق میں ایک ڈرامے کا اسکرپٹ بھی لکھ مارا۔
یہ خیال بھی رہا کہ اسکرپٹ نے اپنے میرٹ پر جگہ بنائی تو بنائی ، میں راجہ منصور ناصر صاحب سے نہیں کہوں گا کہ اسکرپٹ کسی ڈرامہ پروڈیوسر کو دکھا دیں۔
تو اپنی ڈرامہ نگاری کے زعم میں ایک روز پی ٹی وی کی ریسیپشن پر پہنچا اور کہا، مجھے مینیجنگ ڈائیریکٹر (ایم ڈی) صاحب سے ملنا ہے۔ گویا وہ ایم ڈی صاحب صرف مجھ سے شرف ملاقات کے لیے ہی بھرتی کیے گئے تھے۔ پوچھا گیا کہ آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے؟ انہیں خاکی لفافے میں لپٹا پلندہ دکھاکر کہا، یہ اسکرپٹ لکھا ہے۔ ایم ڈی صاحب کو دکھانا ہے۔
ریسیپشن والوں نےوہیں سے ٹالنے کے بجائے ایم ڈی صاحب کے اسسٹنٹ سے بات کی، اور آپ دیکھیے کہ وہ کیا زمانے تھے، مجھے اندر بلا بھی لیا گیا۔ اسسٹنٹ صاحب مجھے قطعاً نہ جانتے تھے۔
انہوں نے مجھ سے اسکرپٹ لے لیا۔ وعدہ بھی کیا کہ متعلقہ شعبے یا حکام تک پہنچا دیں گے۔تب شاید پی ٹی وی میں اسکرپٹ پروڈیوسر یا اسکرپٹ ایڈیٹر کی کوئی اسامی ہوتی تھی (شاید اب بھی ہوتی ہو)۔ مجھے بتایا گیا کہ متعلقہ فرد کو میرے اسکرپٹ میں کوئی جان محسوس ہوئی تو وہ رابطہ کر لے گا۔
شاید مجھ شوقین کی وہ تحریر میں ہی جان نہ تھی۔۔ اس لیے اسکرپٹ منظوری کی کال کبھی بھی نہ آئی۔

یادوں کی پوٹلی سلسلے کی  تمام اقساط اس لنک پر موجود  ہیں https://nokejoke.com/category/%db%8c%d8%a7%d8%af%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d9%be%d9%88%d9%b9%d9%84%db%8c/

پی ٹی وی کے لیے لکھنا

یادوں کی پوٹلی قسط 1

یونیورسٹی میں شور مچا کہ پی ٹی وی کے کوئی پروڈیوسر آئے ہیں۔ نام منصور ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق پروگرام بنا رہے ہیں۔ جو کوئی تجاویز وغیرہ دینا چاہے وہ آ کر مل لے۔
یہ بات سن 2000 کے آخر، یا پھر 2001 کے شروع کی ہے۔ میں ان دنوں نسٹ (نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی) سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔
تب تک میں ڈرامہ الفا ، براوو، چارلی دیکھ کرجی میں یہ بھی ٹھان چکا تھا کہ اس ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور کی طرح، مجھے بھی ہدایت کاری کے شعبے میں ہی آنا ہے۔ نسٹ کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تو داخلہ صرف اس لیے لیا تھا کہ معلوم ہی نہ تھا ہدایت کاری کی تعلیم کہاں سے ملتی ہے۔
یہ وہ دور تھا کہ گوگل کا نام بھی کوئی نہ جانتا تھا۔ سرچ کےلیے یاہو یا پھر آلٹا وسٹا نامی سرچ انجن استعمال کیے جاتے۔ ان سرچ انجنز پر بھی کسی پاکستانی شخصیت کے بارے میں کوئی معلومات نہ ملتیں۔ یعنی میں شعیب منصور کے صرف نام اور کام سے واقف تھا، ان کے چہرے کی پہچان نہ تھی۔
جب یونیورسٹی میں منصور صاحب کی آمد کا علم ہوا تو ان سے جا کر پوچھا، کیا آپ شعیب منصور ہیں؟ کو پڑھنا جاری رکھیں